تابوتِ سکینہ ایک نہایت مقدس اور تاریخی صندوق تھا جس کا ذکر قرآنِ پاک اور تورات دونوں میں موجود ہے۔ یہ صندوق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے منسلک ہے اور بنی اسرائیل کے لیے ایک روحانی نشانی سمجھا جاتا تھا۔
تابوتِ سکینہ کا مطلب
عربی لفظ “تابوت” کا مطلب ہے صندوق یا بکسہ، جبکہ “سکینہ” کا مطلب ہے اطمینان، سکون اور رحمت۔
یعنی “تابوتِ سکینہ” کا مطلب ہوا — سکون اور رحمت والا صندوق۔
تابوتِ سکینہ میں کیا موجود تھا؟
قرآنی و تاریخی حوالوں کے مطابق، تابوتِ سکینہ میں وہ چیزیں رکھی گئی تھیں جو بنی اسرائیل کے لیے بڑی متبرک اور یادگار سمجھی جاتی تھیں۔ ان میں شامل ہیں:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا (ڈنڈا)
جس سے آپ نے سمندر کو چیر کر راستہ بنایا اور کئی معجزات دکھائے۔
حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ یا عصا
جو ان کی نبوت اور امامت کی نشانی تھی۔
تورات کے کچھ اصلی تختیاں (لوحیں)
جن پر اللہ تعالیٰ کے احکامات لکھے ہوئے تھے۔
منّ و سلویٰ کے کچھ نمونے
یعنی وہ کھانے جو اللہ نے بنی اسرائیل پر آسمان سے اتارے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کپڑوں یا سامان کے کچھ آثار
جو ان کے زمانے کی برکت کی علامت مانے جاتے تھے۔
تابوتِ سکینہ کی روحانی اہمیت
تابوتِ سکینہ کو جہاں بھی رکھا جاتا، وہاں اللہ کی رحمت، سکون، اور برکت نازل ہوتی تھی۔
جب بنی اسرائیل جنگ میں جاتے تو یہ تابوت ان کے ساتھ ہوتا اور فتح کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔
اگر کبھی یہ تابوت ان سے چھن جاتا تو وہ سمجھتے کہ اللہ ان سے ناراض ہے۔
قرآنِ مجید میں تابوتِ سکینہ کا ذکر
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ (آیت 248) میں فرمایا:
“اور ان کے نبی نے ان سے کہا: تمہارے لیے اس کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئے گا، جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکینِ دل اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون کے گھرانے نے چھوڑیں۔”
(سورۃ البقرہ: 248)

