دنیا کی رنگینیوں میں گم انسان کو شاید یہ احساس کم ہی ہوتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب زندگی کا ہر سفر ختم ہو جائے گا۔ وہ دن جسے یومِ قیامت کہا گیا ہے — ایک ایسا دن جس کے ہولناک مناظر کا تصور بھی روح کو لرزا دیتا ہے۔

آغازِ قیامت

جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا، تو صور پھونکا جائے گا۔ زمین اپنی جڑوں سے ہل اٹھے گی، پہاڑ روئی کی طرح اُڑ جائیں گے، سمندر اُبل پڑیں گے، اور آسمان پھٹ جائے گا۔ پرندے، جانور، درخت، سب فنا ہو جائیں گے۔ دنیا کی ساری طاقت، عزت اور دولت خاک میں مل جائے گی۔ انسان حیران و پریشان کھڑا سوچے گا کہ آخر یہ کیا ہو گیا؟

دوبارہ زندگی

پھر دوسری بار صور پھونکا جائے گا۔ مردہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ زمین اُن کے جسموں کو واپس کر دے گی۔ کوئی بادشاہ ہوگا، کوئی فقیر، کوئی عالم، کوئی ظالم — سب ایک ہی صف میں ہوں گے۔ اُس دن نہ کسی کے پاس جاہ و حشم ہوگا، نہ مال و دولت کا غرور۔ سب صرف ایک ہی جملہ بولیں گے:

“آج ہم اللہ کے حضور حاضر ہیں!”

میدانِ محشر

یہ وہ میدان ہوگا جس کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں۔ سورج سر پر تلوار کی طرح تپک رہا ہوگا۔ لوگ پسینے میں ڈوبے ہوں گے — کوئی ٹخنوں تک، کوئی گھٹنوں تک، اور کوئی پورے جسم تک۔ کچھ لوگ اپنے اعمال کے بوجھ سے جھکے ہوں گے، کچھ چہرے چمک رہے ہوں گے کیونکہ وہ ایمان والے تھے۔

فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ انبیاء علیہم السلام اپنی امتوں کے ساتھ موجود ہوں گے۔ ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہوگی۔ مگر کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، سوائے اُس کے جس پر اللہ رحم کرے۔

اعمال کا حساب

پھر اعمال نامے تقسیم ہوں گے۔ جن کے اعمال نیک ہوں گے، وہ دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال پائیں گے۔ ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے۔

“لو دیکھو، میرا نامۂ اعمال مجھے دائیں ہاتھ میں دیا گیا!”

اور جن کے اعمال برے ہوں گے، وہ بائیں ہاتھ میں پائیں گے، چہرے سیاہ، آنکھوں میں خوف، زبان پر پچھتاوے کے الفاظ:

“کاش! میں دنیا میں کچھ نیک عمل کر لیتا۔”

پلِ صراط

پھر ایک پل بچھایا جائے گا، جو دوزخ کے اوپر ہوگا۔ یہ پل تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا۔ ہر شخص کو اس پر سے گزرنا ہوگا۔ مومن نیکیوں کے نور سے آسانی سے گزر جائیں گے، جبکہ منافق اور کافر اندھیرے میں لڑکھڑاتے رہیں گے۔ نیچے دوزخ کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے، جو اپنے شکار کو کھینچنے کے لیے بے چین ہوں گے۔

جنت اور دوزخ

آخرکار، فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ جنہوں نے ایمان لایا، صبر کیا، اور نیکیوں میں زندگی گزاری — اُن کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔

“سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ، تم پر کوئی خوف نہیں!”

اور جنہوں نے ظلم، گناہ اور کفر میں زندگی گزاری، اُن کے لیے دوزخ کا عذاب ہوگا۔ وہاں نہ موت آئے گی، نہ سکون۔ صرف پچھتاوا، آنسو، اور درد۔

انجام کا پیغام

قیامت کا دن صرف کہانی نہیں، ایک یقینی حقیقت ہے۔ ہمیں آج سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اُس دن کے لیے تیار ہیں؟
دنیا کی وقتی آسائشیں ختم ہو جائیں گی، لیکن اعمال کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا۔
ہر نماز، ہر نیکی، ہر سچائی — اُس دن ہمارے لیے روشنی بنے گی۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here