پرانے زمانوں کی ایک حکایت میں بادشاہ نمرُود کا نام آتا ہے، جو اپنی قوم میں ظلم و ستم، تکبر اور خود کو معبود سمجھنے کے دعوے کے باعث مشہور تھا۔ اس بادشاہ کی ایک بیٹی کا قصّہ بھی روایت ہے — ایک ایسی لڑکی جو اپنے باپ کے سخت نظام اور ظالم حکمرانی کے خلاف اُس وقت سامنے آئی، جب حق کا نور اُس کی زندگی میں جگمگا گیا۔ اس مضمون میں ہم اُس بیٹی کے ایمان، امتحان، اور سبق آموز کہانی کا جائزہ لیں گے۔

نمرُود کون تھا؟

نمرُود ایک بدعت‌ پسند بادشاہ تھا، جس نے خود کو معبود کا مقام دے لیا تھا اور لوگوں کو اُس کے بتوں کی پوجا پر مجبور کیا جاتا تھا۔ (Dawat-e-Islami)
اُس زمانے میں حق کی آواز بلند کرنے والا حضرت ابراہیم علیہ السلام تھا، جنہوں نے نمرُود کی بت پرستی اور ظلم کو چیلنج کیا۔ (Jang)
یہ پس منظر اُس لمحے کو واضح کرتا ہے، جہاں نمرُود کی بیٹی نے ایک اہم کردار ادا کیا۔

نمرُود کی بیٹی کا ایمان

روایات کے مطابق، نمرُود کی بیٹی نے اپنے باپ کے بت پالن اور خود ساختہ حکمرانی کے خلاف ایک عہد کیا۔ ایک روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا، تو وہ لڑکی وہاں پہنچی، اور دیکھ کر کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا، اُس نے ایمان اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ (Javed Chaudhry Columns)
اگرچہ قرآن میں اس کا نام صراحت سے نہیں آیا، کچھ مفسرین اور تاریخی حکایات اس کی موجودگی کا اشارہ دیتے ہیں۔ (اردو محفل)
اس نے ثابت کیا کہ حق کا نور چھوٹے سے چھوٹے حلقے میں بھی پھیل سکتا ہے، اگر انسان دل کی آنکھ سے دیکھے۔

امتحان اور ظُلم کے مراحل

نمرُود نے نہ صرف خود بت پرستی کی بلکہ اپنے سلطان کا اختیار اسے ایسے استعمال کرنے کی اجازت دیتا تھا کہ جو حق و باطل کے موازنے میں سراسر باطل تھا۔ اس نے قوم کو حق کی بجائے باطل کی سمت دھکیلنے کی کوشش کی۔ (Dawat-e-Islami)
اس لڑکی نے، اپنے باپ کے محل اور بتوں کے سامنے، ایمان کی راہ اختیار کی، جو اُس کے لیے آسان نہ تھی۔ ظلم کی ستم رسائی، معاشرتی دباؤ اور ممکنہ خطرات نے اُس کے عزم کو آزمائش میں ڈال دیا۔
کچھ حکایات بتاتی ہیں کہ نمرُود نے اپنی بیٹی پر سختیاں کیں، قید و اذیت کا سامنا کروایا، تاکہ وہ اپنے ایمان سے باز آ جائے۔ (Javed Chaudhry Columns)
یہ مرحلہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایمان صرف اعتقاد کا نام نہیں، بلکہ عملِ استقامت کا تقاضا ہے۔

سبق آموز نکات

۱. ایمان کی طاقت: اس بیٹی نے ایک ایسے نظام کے سامنے ایمان کا پرچم بلند کیا، جہاں طاقت ور بادشاہ نے بتوں اور ظلم کو فروغ دیا تھا۔
۲. استقلال اور اعتماد: اُس نے خوف اور خطرے کے باوجود حق کو اختیار کیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایمان وہ ہے جو مشکل سفر میں آشکار ہوتا ہے۔
۳. عبرت کا پیغام: یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ باطل کی قوتیں عارضی ہیں، حق کی قوت ابدی ہے۔ اور ان لوگوں کے لیے ہے جو ڈٹ کر حق کا دفاع کریں۔
۴. انفرادی اثر: ایک فرد، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، بڑی تبدیلی لا سکتا ہے اگر اُس نے اپنے عزم کو مضبوط رکھا ہو۔

نتیجہ

نمرُود کی بیٹی کی کہانی ہمیں یہ باور کرواتی ہے کہ ظلم کی قوتیں وقتاً فوقتاً سر اٹھا لیتی ہیں، لیکن حق اور ایمان کی روشنی ہمیشہ تابندہ رہتی ہے۔ اگر ہم اسی راستے پر چلیں، خوف و خطر سے ڈرنے کے بجائے استقامت دکھائیں، تو ہمارے اندر ایک ایسی قوت پیدا ہو سکتی ہے جو کائنات کی طاقتوں کے آگے بھی جیت سکتی ہے۔
یہ قصّہ نہ صرف ماضی کی بات ہے بلکہ آج بھی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہر انسان میں نرّوُد کے خلاف حق کے لیے آواز اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here