کعبہ کی تعمیر کا پس منظر

قریشِ مکہ جب کعبہ کی عمارت کو از سرِ نو تعمیر کر رہے تھے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو پتھر کمزور یا پرانے ہو چکے ہیں، ان کی جگہ مضبوط پتھر لگائے جائیں۔ مکہ میں ایک بڑا سیلاب آیا جس سے کعبہ کی دیواریں متاثر ہو گئی تھیں۔ اس لیے اہلِ مکہ نے اتفاق کیا کہ وہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے، مگر صرف پاک کمائی سے۔

جب عمارت تقریباً مکمل ہو گئی تو ایک مرحلہ ایسا آیا کہ حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے کا وقت آیا — یہی وہ مقام تھا جہاں اختلاف شروع ہوا۔

قبیلوں میں جھگڑا

ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ عظیم سعادت اسے نصیب ہو کہ وہ حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھے۔ اختلاف اتنا بڑھا کہ معاملہ لڑائی تک جا پہنچا۔ کئی دن تک مشورے ہوئے، یہاں تک کہ تلواریں میان سے نکلنے کے قریب تھیں۔

اسی دوران قریش کے ایک بزرگ نے کہا:

“جو شخص سب سے پہلے کل صبح حرم میں داخل ہوگا، ہم اسے اپنا منصف مان لیں گے۔”

سب نے یہ تجویز قبول کر لی۔

رسولِ اکرم ﷺ کی منصفی

اگلی صبح جب لوگ بیت اللہ کے قریب جمع تھے تو سب سے پہلے نبی کریم ﷺ وہاں تشریف لائے۔ جیسے ہی لوگوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو خوشی سے پکار اُٹھے:

“یہ تو محمد الامین ہیں! ہم ان پر بھروسہ کرتے ہیں!”

آپ ﷺ نے جب معاملہ سنا تو مسکرائے اور فرمایا:

“میرے پاس ایک کپڑا لاؤ۔”

آپ ﷺ نے حجرِ اسود کو اس کپڑے پر رکھا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا ایک سردار کپڑے کے کنارے پکڑ لے۔ جب سب نے پتھر کو اس کی جگہ کے قریب پہنچا دیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کو اُٹھا کر اس کی مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔

جھگڑا ختم، امن قائم

یوں رسول اللہ ﷺ کی دانائی، عدل اور فراست نے ایک بڑے خونریز جھگڑے کو ختم کر دیا۔ سب قبیلے خوش ہوئے اور کہنے لگے:

“یہی ہیں محمد ﷺ، جنہیں اللہ نے عقل و دانائی سے نوازا ہے۔”

یہ واقعہ نہ صرف امن و اتفاق کی مثال ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ﷺ کو نبوت سے پہلے بھی امین اور عادل کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

حجرِ اسود کی فضیلت

حجرِ اسود جنت کا پتھر ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ:

“حجرِ اسود جنت سے آیا، پہلے سفید تھا مگر لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔”
(ترمذی شریف)

حجرِ اسود کو بوسہ دینا سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر میں نے نبی ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔”
(صحیح بخاری)

سبق اور پیغام

یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ:

دانائی اور عدل سے بڑے سے بڑا تنازعہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی شخصیت ہمیشہ امن، عقل، اور اتفاق کی علامت رہی۔
حجرِ اسود صرف ایک پتھر نہیں بلکہ ایمان، اخلاص، اور اطاعت کی نشانی ہے۔

نتیجہ

“حجرِ اسود کا واقعہ” انسانیت کے لیے ایک سنہری مثال ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے جس بصیرت سے یہ مسئلہ حل کیا، اس نے نہ صرف مکہ میں امن قائم کیا بلکہ آپ ﷺ کے بلند اخلاق و کردار کو دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا۔ آج بھی یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اختلاف کے وقت غصے کے بجائے عدل، صبر، اور حکمت سے کام لینا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here