تعارف
دنیا میں ہر دور میں کوئی نہ کوئی قوم ایسی آئی جس نے طاقت، دولت اور علم میں کمال حاصل کیا۔ لیکن جب غرور، ظلم اور خود پسندی ان کے دلوں میں بس گئی، تو ان کا زوال شروع ہوا۔ یہی کہانی ہے قومِ شہود کی — وہ قوم جو زمین پر سب سے طاقتور سمجھی جاتی تھی، مگر اپنے انجام سے نہ بچ سکی۔
قومِ شہود کی ترقی
قومِ شہود ایک پہاڑی علاقے میں آباد تھی۔ ان کے پاس سونے کے ذخائر، جدید مشینیں، اور حیرت انگیز علم تھا۔ وہ آسمانوں تک پہنچنے والے مینار بناتے، سمندروں کی تہوں تک جا کر خزانے نکالتے، اور اپنے دشمنوں کو لمحوں میں مٹا دینے والی طاقت رکھتے تھے۔
ان کے شہر رات کے وقت دن کی طرح روشن رہتے۔ ہر گھر میں آسائش، ہر ہاتھ میں دولت، اور ہر زبان پر فخر کے نعرے تھے۔ وہ کہتے تھے:
“ہم وہ قوم ہیں جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا!”
غرور اور گناہ کی راہ
جب انسان اپنی طاقت پر بھروسہ کر لے اور اپنے خالق کو بھول جائے تو تباہی قریب آ جاتی ہے۔ قومِ شہود نے بھی یہی کیا۔ انہوں نے کمزوروں پر ظلم شروع کر دیا، نیکی کا مذاق اڑایا، اور سچ بولنے والوں کو قید کر دیا۔
ان کے بادشاہ شہود اعظم نے اعلان کیا:
“ہمیں کسی خدا کی ضرورت نہیں، ہم خود اپنی تقدیر کے خالق ہیں!”
یہ الفاظ زمین و آسمان میں گونج اٹھے۔ آسمان نے صبر کیا، مگر جب ظلم حد سے بڑھ گیا، تو قدرت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
عذاب کی پہلی نشانی
ایک دن اچانک زمین ہلنے لگی۔ لوگ سمجھ نہ پائے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ آسمان پر سیاہ بادل چھا گئے، اور ایک عجیب سرخ روشنی پھیل گئی۔ پانی کے چشمے خشک ہونے لگے، پرندے غائب ہو گئے، اور ہواؤں میں بارود کی بو پھیل گئی۔
دانشمندوں نے کہا
“یہ معمولی بات نہیں، یہ قدرت کا انتباہ ہے!”
مگر قومِ شہود نے ہنس کر کہا:
“ہم اپنی ٹیکنالوجی سے سب کچھ ٹھیک کر لیں گے!”
عذاب کا آغاز
پھر ایک رات ایسی آئی جب زمین نے چیخ ماری۔ پہاڑ پگھلنے لگے، سمندر شہر نگل گئے، اور آسمان سے آگ کی بارش ہونے لگی۔ ان کے اونچے مینار ریت میں بدل گئے۔ طاقتور سپاہی مدد کے لیے چیختے رہے مگر کوئی نہ بچ سکا۔
صرف چند لوگ، جو عاجزی سے معافی مانگنے لگے تھے، ایک غار میں پناہ لے کر بچ گئے۔ ان میں ایک بوڑھا عالم، ایک یتیم بچہ اور ایک کمزور عورت شامل تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سچ کو قبول کیا تھا۔
شہود کا انجام
صبح جب سورج نکلا، تو قومِ شہود کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ وہ زمین جو کبھی چمکتی تھی، اب راکھ بن چکی تھی۔ صرف ایک پتھر پر لکھا جملہ باقی تھا:
“یہ انجام ہے اُن لوگوں کا جو طاقت کے نشے میں خالق کو بھول جائیں۔”
سبق
دنیا کی کوئی طاقت ہمیشہ نہیں رہتی۔ علم، دولت، اور ٹیکنالوجی انسان کو بلند تو کر سکتی ہے، مگر غرور اسے گرا دیتا ہے۔
قومِ شہود کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:
“اصل طاقت ایمان، عدل اور عاجزی میں ہے — نہ کہ ہتھیاروں اور دولت میں۔”

